Posts

Showing posts from September, 2015

Lover Urdu Poetry Pics And Images

Image
Urdu Poetry Images For Lovers,Urdu,Photos Lovers,Sad,Love,Poetry Love Pics .MSG Urdu,Best Wallpapers IN Urdu For Lovers

2 Lines Letest Urdu Poetry

Image
urdu poetry  collection,sad urdu poetry .urdu lovers poetry,urdu love shaiyari,sad poetry for lovers,romantic poetry in urdu,romantic  poetry,colection of best urdu poetry,urdu font love poetry,urdu sms poetry, sms shaiyari,Urdu Poetry,free latest love poetry,Urdu Poetry lovely & friendly ,Lovely Romantic Urdu Poetry Story,Original romantic and lovely urdu poetry,Original romantic and lovely urdu poetry,Best collection of urdu romantic poetry,New lovely romantic urdu sad poetry,Urdu Romantic Lovely Poetry, Urdu teen age girl shayairy romantic and lovely Urdu Shayari,Urdu Poetry ,Towlines Best Poetry,Urdu,Sad Poetry,Romantic Poetry,Shayari,Urdu Sms 2line,Urdu Sms 2line,Urdu Sad Sms,Love Poetry, Urdu freind Lovel poetry, urdu sad love girl image Pictures shayari. ghazal Urdu sad poetry is really sad ghazal poetry written in Urdu poetry sad poetry ghazal language. 2 Lines urdu love poetry 2 line urdu love shayari Friend's Lovely Photo Poetry,

(Armaghan-e-Hijaz - 10) - Faraghat De Usse Kaar-e-Jahan Se (فراغت دے اس کار جہاں سے) Set him free of this world’s affairs

فراغت دے اسے کارِ جہاں سے کہ چھوٹے ہر نفس کے امتحاں سے ہوا پیری سے شیطاں کہنہ اندیش گناہِ تازہ تر لائے کہاں سے مطلب: اس رباعی میں اقبالؒ نے بظاہر خدا سے شیطان کی سفارش کی ہے کہ مولا کریم اگر تیری مرضی ہو تو اب اس بیچارے شیطان پر رحم کر اور اسے اہل جہاں کو ورغلانے کے کام سے فارغ کر دے۔ میں دیکھا کہ وہ ایک لمحہ کے لئے بھی چین سے نہیں بیٹھ سکتا کیونکہ اگر وہ ایسا کرے تو اپنی اصلی یا حقیقت سے دور ہو جائے۔ اس کا فرض ہے کہ لمحہ بنی آدم کے قلوب میں وسا وس پیدا کرتا رہے یعنی ہر وقت اپنی شیطانیت کا ثبوت دیتا رہے۔ اے خدا یہ ایک حقیقت ہے کہ شیطان بوڑھا ہو چکا ہے (اقل تخمینہ کے مطابق اس کی عمر سات ہزار سال سے کم نہیں ہے) اس لئے اس کے تصورات و تخیلات بھی فرسودہ ہو چکے ہیں کہ ان میں کوئی حدت باقی نہیں رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب وہ ہم سے نئے گناہوں کا ارتکاب نہیں کرا سکتا تو اسے خدا ہم لوگ اب لوٹ کر پھر وہی پرانے گناہ کر رہے ہیں چونکہ اب وہ نئے گناہ پیدا نہیں کر سکتا۔ اس لئے مناسب ہے کہ تو اسے اس ڈیوٹی (کارِ جہان) سے فارغ کر دے۔ یعنی اب خیر و شر کا تنازع ختم کر دے۔ جب ہم کوئی نی

مکمل متروکہ نظمیں

واہ سعدی دیکھ لی گندہ دہانی آپ کی فلاحِ قوم نالۂ یتیم خدا حافظ اشکِ خوں یتیم کا خطاب ہلال عید سے میں اور میری قوم پنجۂ فولاد ہم نہ چھوڑیں گے دامن خیر مقدم دین و دنیا اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب کے مسلمانوں سے شکریۂ انگشتری ماتم پسر فریادِ امّت اہلِ درد دیگر برگِ گل شیشۂ ساعت کی ریگ دربارِ بہاول پور شمعِ زندگانی چاند اور شاعر جہاں تک ہو سکے نیکی کرو! بچوں کے لیے چند نصیحتیں گھوڑوں کی مجلس شہد کی مکھّی محنت مزدور کا خواب گلِ خزاں دیدہ عیشِ جوانی عورت قطرئہ اشک نظم بے عنوان گمشدہ دستانہ

’’بانگِ درا‘‘ کے متروکات

دورِ اوّل کا کلام(۱۸۹۳ء تا ۱۹۰۸ئ)     ’’بانگِ درا‘‘ کے متروکات مکمل متروکہ نظمیں نظموں کے جزوی متروکات  مکمل متروکہ غزلیں  غزلوں کے جزوی متروکات  مکمل قطعات ؍ رباعیات

محنت

وہی لوگ پاتے ہیں عزّت زیادہ جو کرتے ہیں دنیا میں محنت زیادہ اسی میں ہے عزّت ، خبردار رہنا بڑا دکھ ہے دنیا میں بے کار رہنا اسی سے ہے آباد نگری جہاں کی یہ دنیا میں بنیاد ہے ہر مکاں کی بڑائی بشر کو اسی سے ملی ہے نکمّی جو گذرے وہ کیا زندگی ہے زمانے میں عزت ،حکومت یہی ہے بڑی سب سے دنیا میں دولت یہی ہے حقیقت جو محنت کی  پہچانتے ہیں اسے کیمیا سے سوا جانتے ہیں کوئی بڑھ کے محنت سے سونا نہیں ہے کہ اس زر کو چوری کا کھٹکا نہیں ہے جہاں میں اگر کیمیا ہے تو یہ ہے غریبی کے دکھ کی دوا ہے تو یہ ہے ہری کھیتیاں جو نظر آ رہی ہیں ہمیں شان محنت کی دکھلا رہی ہیں نہیں کرتے دنیا میں نادان محنت جو سمجھیں تو سونے کی ہے کان محنت اسی سے زمانے میں دولت بڑھے گی جو دولت بڑھے گی تو عزّت بڑھے گی کوئی اس کو سمجھے تو اکسیر ہے یہ بڑا بن کے رہنے کی تدبیر ہے یہ یہ کل وہ ہے ، چلتے ہیں سب کام اسی سے نکلتا ہے انسان کا نام اسی سے جو محنت نہ ہوتی تجارت نہ ہوتی کسی قوم کی شان و شوکت نہ ہوتی سہارا ہمارا تمہارا یہی ہے اندھیرے گھروں کا اجالا یہی ہے بڑے کام کی چیز ہے کام کرنا جہاں کو اسی کام سے رام کرنا گڈریوں کو شاہنشہی اس نے دی ہے

شہد کی مکھّی

اس پھول پہ بیٹھی کبھی اس پھول پہ بیٹھی بتلائو تو کیا ڈھونڈتی ہے شہد کی مکھّی؟ کیوں آتی ہے ، کیا کام ہے گلزار میں اس کا یہ بات جو سمجھائو تو سمجھیں تمہیں دانا چہکارتے پھرتے ہیں جو گلشن میں پرندے کیا شہد کی مکھّی کی ملاقات ہے ان سے؟ عاشق ہے یہ قمری کی کہ بلبل پہ ہے شیدا؟ یا کھینچ کے لاتا ہے اسے سیر کا چسکا؟ دل باغ کی کلیوں سے تو اٹکا نہیں اس کا؟ بھاتا ہے اسے ان کے چٹکنے کا تماشا؟ سبزے سے ہے کچھ کام کہ مطلب ہے صبا سے یا پیار ہے گلشن کے پرندوں کی صدا سے؟ بھاتا ہے اسے پھول پہ بلبل کا چہکنا؟ قمری کا ویا سرو پہ بیٹھے ہوئے گانا؟ پیغام کوئی لاتی ہے بلبل کی زبانی؟ کہتی ہے ویا پھول کے کانوں میں کہانی؟ کیوں باغ میں آتی ہے یہ بتلائو تو جانیں کیا لینے کو آتی ہے ؟ یہ سمجھائو تو جانیں بے وجہ تو آخر کوئی آنا نہیں اس کا ہشیار ہے مکھّی ، اسے غافل نہ سمجھنا بے ُسود نہیں باغ میں اس شوق سے اڑنا کچھ کھیل میں یہ وقت گنواتی نہیں اپنا کرتی نہیں کچھ کام اگر عقل تمہاری ہم تم کو بتاتے ہیں ، سنو بات ہماری کہتے ہیں جسے شہد وہ اک طرح کا رس ہے آوارہ اسی چیز کی خاطر یہ مگس ہے رکھّا ہے خدا نے اسے پھولوں میں چھپا ک

گھوڑوں کی مجلس

اک روز کسی گھوڑے کے دل میں یہ سمائی انسان مری قوم سے کرتا ہے برائی رکھّا ہے مرے بھائیوں کو اس نے جکڑ کر تدبیر ہو ایسی کہ ملے ان کو رہائی میں قوم کی ذلّت نہ کبھی دیکھ سکوں گا اک آگ سی ہے اس نے مرے جی کو لگائی یہ ٹھان کے جنگل کے رفیقوں کو بلایا سب آئے کہ اس بات میں تھی سب کی بھلائی حاضر ہوئے بوڑھے بھی ، بچھیرے بھی ، جواں بھی دیتے ہوئے انسان کی سختی کی دہائی پہلے تو ہری گھاس سے کی ان کی تواضع مہمانوں کو پھر بات جو تھی دل کی بتائی اک گھوڑے کو کرسی پہ صدارت کی بٹھا کر سب نے یہ کہا ، آپ کریں راہ نمائی ہونے لگا گھوڑوں کا بڑی دھوم سے جلسہ دینے لگی اس قوم کی اک شان دکھائی کچھ دیر تو ہوتی رہیں آپس میں صلاحیں ہر ایک نے تدبیر رہائی کی بتائی مجلس سے اٹھا آخرِ کار ایک بچھیرا اور اٹھ کے متانت سے زباں اپنی ہلائی تقریر پہ سو جان سے صدقے تھی فصاحت تھی گھوڑے کی باتوں میں قیامت کی صفائی بولا کہ مرِی قوم میں غیرت نہیں باقی کس طرح ہو پھر غیر کے ہاتھوں سے رہائی جینا جو ہمارا ہے وہ ذلّت کا ہے جینا ہم نے تو بزرگوں کی بھی عزّت ہے گنوائی ہم گاڑیاں انسان کی کھینچیں ، یہ غضب ہے محنت کریں ہم اور یہ کھا جائے کم

بچوں کے لیے چند نصیحتیں

کاٹ لینا ہر کٹھن منزل کا کچھ مشکل نہیں اک ذرا انسان میں چلنے کی ہمّت چاہیے مل نہیں سکتی نکمّوں کو زمانے میں مراد کامیابی کی جو ہو خواہش تو محنت چاہیے خاک محنت ہو سکے گی جب نہ ہو ہاتھوں میں زور تندرستی کے لیے ورزش کی عادت چاہیے خوش مزاجی سا زمانے میں کوئی جادو نہیں ہر کوئی تحسیں کہے ، ایسی طبیعت چاہیے ہنس کے ملنا رام کر لیتا ہے ہر انسان کو سب سے میٹھا بولنے کی تم کو عادت چاہیے ایک ہی اللہ کے بندے ہیں سب چھوٹے بڑے اپنے ہم جنسوں سے دنیا میں محبت چاہیے ہے برائی سی برائی ! کام کل پر چھوڑنا آج سب کچھ کر کے اٹّھو گر فراغت چاہیے جو بروں کے پاس بیٹھے گا ، برا ہو جائے گا نیک ہونے کے لیے نیکوں کی صحبت چاہیے ساتھ والے دیکھنا تم سے نہ بڑھ جائیں کہیں جوش ایسا چاہیے ، ایسی حمیّت چاہیے حکمراں ہو ، کوئی ہو اپنا ہو یا بیگانہ ہو دی خدا نے جس کو عزّت اس کی عزّت چاہیے دیکھ کر چلنا ، کچل جائے نہ چیونٹی راہ میں آدمی کو بے زبانوں سے بھی الفت چاہیے ہے اسی میں بھید عزّت کا اگر سمجھے کوئی چھوٹے بچوّں کو بزرگوں کی اطاعت چاہیے علم کہتے ہیں جسے ، سب سے بڑی دولت ہے یہ ڈھونڈ لو اس کو اگر دنیا میں عزّت چاہیے سب برا

جہاں تک ہو سکے نیکی کرو!

بچوں کے لیے کہتے ہیں ایک سال نہ بارش ہوئی کہیں گرمی سے آفتاب کی تپنے لگی زمیں تھا آسمان پر نہ کہیں ابر کا نشاں پانی ملا نہ جب تو ہوئیں خشک کھیتیاں لالے پڑے تھے جان کے ہر جاندار کو اجڑے چمن ، ترستے ترستے بہار کو منہ تک رہی تھی خشک زمیں آسمان کا امّید ساتھ چھوڑ چکی تھی کسان کا بارش کی کچھ امید نہ تھی اس غریب کو یہ حال تھا کہ جیسے کوئی سوگوار ہو اک دن جو اپنے کھیت میں آکر کھڑا ہوا پودوں کا حال دیکھ کے بے تاب ہو گیا ہر بار آسماں کی طرف دیکھتا تھا وہ بارش کے انتظار میں گھبرا رہا تھا وہ ناگاہ ایک ابر کا ٹکڑا نظر پڑا لاتی تھی اپنے ساتھ اڑا کر جسے ہوا پانی کی ایک بوند نے تاکا اِدھر اُدھر بولی وہ اس کسان کی حالت کو دیکھ کر ویران ہو گئی ہے جو کھیتی غریب کی ہے آسمان پر نظر اس بدنصیب کی دل میں یہ آرزو ہے کہ اس کا بھلا کروں یعنی برس کے کھیت کو اس کے ہرا کروں بوندوں نے جب سنی یہ سہیلی کی گفتگو ہنس کر دیا جواب کہ اللّہ رے آرزو تو اک ذرا سی بوند ہے ، اتنا بڑا یہ کھیت تیرے ذرا سے نم سے نہ ہو گا ہرا یہ کھیت تیری بساط کیا ہے کہ اس کو ہرا کرے ہو خود جو ہیچ ، کیا وہ کسی کا بھلا کرے اس بوند نے مگر ی

چاند اور شاعر

شاعر اک رات میرے دل میں جو کچھ آ گیا خیال یوں چودھویں کے چاند سے میں نے کیا سوال اے چاند تجھ سے رات کی عزت ہے ، لاج ہے سورج کا راج دن کو ، ترا شب کو راج ہے تو نے یہ آسمان کی محفل سجائی ہے تو نے زمیں کو نور کی چادر اُڑھائی ہے تو وہ دیا ہے جس سے زمانے میں نور ہے ہے تو فلک پہ ، نور ترا دور دور ہے پھیکی پڑی ہوئی ہے ستاروں کی روشنی گویا کہ اس چمن پہ خزاں کی ہوا چلی تیری چمک کے سامنے شرما گئے ہیں یہ تیری ہوا بندھی ہے تو مرجھا گئے ہیں یہ اس وقت تیرے سامنے سورج بھی مات ہے دولھا ہے تو ، نجوم کی محفل برات ہے پائی ہے چاندنی یہ کہاں سے ، بتا مجھے یہ نور ، یہ کمال کہاں سے ملا تجھے؟ مجھ کو بھی آرزو ہے کہ ایسا کمال ہو تیری طرح کمال مرا بے مثال ہو روشن ہو میرے دم سے زمانہ اسی طرح دنیا میں اپنا نام نکالوں تری طرح حاصل کروں کمال ، بنوں چودھویں کا چاند تو ہے فلک کا چاند ، بنوں میں زمیں کا چاند ہر ایک کی نظر میں سمائوں اسی طرح شہرت کے آسمان پہ چمکوں اسی طرح چاند میرا سوال سن کے کہا چاند نے مجھے لے بھید اپنے نور کا کہتا ہوں میں تجھے سورج اگر نہ ہو تو گزارا نہیں مرا مانگا ہوا ہے نور یہ اپنا نہیں مرا سور

شمعِ زندگانی

اے شمع زندگانی کیوں جھلملا رہی ہے شاید کہ بادِ صرصر تجھ کو بجھا رہی ہے ہاں ہاں ذرا ٹھہر جا اس منزلِ فنا میں بزمِ جہاں کی الفت مجھ کو ستا رہی ہے مجھ زار و ناتواں پر لِلّٰہ اب کرم کر کیوں نخلِ آرزو پر بجلی گرا رہی ہے دل کا بخار کچھ تو مجھ کو نکالنے دے گزری ہوئی کہانی اب تک رُلا رہی ہے کیا نا امید ہو کر بزمِ جہاں سے جائوں کیوں خاک میں ابھی سے مجھ کو ملا رہی ہے دنیا کے یہ مناظر پیشِ نظر ابھی ہیں مجھ کو مری تمنّا اب تک ستا رہی ہے برباد ہو رہی ہے کشتِ مراد میری مثلِ چنار اس کو ناحق جلا رہی ہے ارمان و آرزو پر تجھ کو نہ رحم آیا کیوں میری حسرتوں کو دل سے مٹا رہی ہے اے شمع کیوں ابھی سے آنکھیں ہیں سب کی پر نم کیا مرگِ ناگہانی تشریف لا رہی ہے رو لیں گے بعد میرے جی بھر کے رونے والے کیوں تو ابھی سے رو کر سب کو رُلا رہی ہے تیری اگر خوشی ہو ، مرنے پہ میں ہوں راضی شمعِ حیات گل ہو ، کیوں جھلملا رہی ہے ۱ -     باقیات ص ۲۲۸

دربارِ بہاول پور

بزمِ انجم میں ہے گو چھوٹا سا اک اختر ، زمیں آج رفعت میں ثریّا سے بھی ہے اوپر زمیں اوج میں بالا فلک سے ، مہر سے تنویر میں کیا نصیبہ ہے رہی ہر معرکے میں ور زمیں انتہائے نور سے ہر ذرّہ اختر خیز ہے مہر و ماہ و مشتری صیغے ہیں اور مصدر زمیں لے کے پیغامِ طرب جاتی ہے سوئے آسماں اب نہ ٹھہرے گی کبھی اطلس کے شانوں پر زمیں شوق بِک جانے کا ہے فیروزئہ گردوں کو بھی مول لیتی ہے لٹانے کے لیے گوہر زمیں بسکہ گلشن ریز ہے ہر قطرئہ ابرِ بہار ہے شگفتہ صورتِ طبعِ سخن گستر زمیں برگِ گل کی رگ میں ہے جنبش رگِ جاں کی طرح ہے امیں اعجازِ عیسیٰ کی کہ افسوں گر زمیں خاک پر کھینچیں جو نقشہ مرغِ بسم اللہ کا قوتِ پرواز دے دے حرفِ قُم کہہ کر زمیں صاف آتا ہے نظر صحنِ چمن میں عکسِ گل بن گئی آپ اپنے آئینے کی روشن گر زمیں اس قدر نظّارہ پرور ہے کہ نرگس کے عوض خاک سے کرتی ہے پیدا چشمِ اسکندر زمیں امتحاں ہو اس کی وسعت کا جو مقصودِ چمن خواب میں سبزے کے آئے آسماں بن کر زمیں چاندنی کے پھول پر ہے ماہِ کامل کا سماں دن کو ہے اوڑھے ہوئے مہتاب کی چادر زمیں آسماں کہتا ہے ظلمت کا جو ہو دامن میں داغ دھوئے پانی چشمۂ خورشید سے لے کر

شیشۂ ساعت کی ریگ

اے مُشتِ گردِ میداں ، اے ریگ سرخ صحرا کس فتنہ خوُ نے تجھ سے دشتِ عرب چھڑایا صر صر کے دوش پر تو اڑتی پھری ہے صدیوں بلّور کے مکاں میں کرتی ہے اب بسیرا ہے خار زارِ غربت تیرے لیے یہ شیشہ قصرِ بلّور جس کو میری نظر نے سمجھا تیرے سکوت میں ہے سو داستاں پرانی عہدِ کہن بھی گویا دیکھا ہوا ہے تیرا اس دن کی یاد اب تک باقی ہے تیرے دل میں کنعاں کا قافلہ جب سوئے حجاز آیا دیکھے ہوئے ہیں تیرے فرعون کے سپاہی تو ہو چکی ہے شاید پامالِ قومِ موسیٰ چومے تھے تو نے اڑ کر مریم کے پائے نازک ٹوٹا جو ناصرہ کی تقدیر کا ستارا شاید گواہ ہے تو اس روز کے ستم پر یثرب کا چاند جس دم اپنے وطن سے نکلا ہو کس طرح بھلا تو اس نقشِ پا سے غافل جس نے ترے وطن کو جنت بنا دیا تھا اے ریگِ سرخ تیرا ہر ذرّہ کہہ رہا ہے میں جانتا ہوں قصّہ میدانِ کربلا کا تو گردِ پا ہے شاید بصرہ کے زائروں کی بانگِ درا سے تیرا ہر ذرّہ ہے شناسا طرزِ نفس شماری شیشے سے تو نے سیکھی جاسوس بن گئی تو اقلیمِ زندگی کی   ۱ -     خواجہ محمد اقبال ، حضرت کے ایک مرید خاص کا نام تھا ، جن پر ان کی بڑی نظر عنایت تھی-   ۲ -     سرود ِرفتہ ص ۸۶

برگِ گل

کیوں نہ ہوں ارماں مرے دل میں کلیم اللہ کے طور در آغوش ہیں ذرّے تری درگاہ کے میں تری درگاہ کی جانب جو نکلا ، لے اڑا آسماں تارے بنا کر میری گردِ راہ کے ہے زیارت کی تمنّا ، المدد اے سوزِ عشق پھول لا دے مجھ کو گلزارِ خلیل اللہ کے شانِ محبوبی ہوئی ہے پردہ دارِ شانِ عشق ہائے کیا رتبے ہیں اس سرکارِ عالی جاہ کے تر جو تیرے آستانے کی تمنّا میں ہوئی اشک موتی بن گئے چشمِ تماشا خواہ کے رنگ اس درگہ کے ہر ذرّے میں ہے توحید کا طائرانِ بام بھی طائر ہیں بسم اللہ کے چھپ کے ہے بیٹھا ہوا اثبات نفیِ غیر میں ’’لا‘‘ کے دریا میں نہاں، موتی ہیں ’’اِلا اللہ‘‘ کے سنگِ اسود تھا مگر سنگِ فسانِ تیغِ عشق زخم میرے کیا ہیں ، دروازے ہیں بیت اللہ کے عشق اس کو بھی تری درگاہ کی رفعت سے ہے آہ! یہ انجم نہیں ، آنسو ہیں چشمِ ماہ کے کس قدر سر سبز ہے صحرا محبّت کا مری اشک کی نہریں ہیں اور سائے ہیں نخلِ آہ کے تیرے ناخن نے جو کھولی میمِ احمدؐ کی گرہ کھل گئے عُقدے جہاں میں ہر خدا آگاہ کے میرے جیسے بے نوائوں کا بھلا مذکور کیا قیصر و فغفور درباں ہیں تری درگاہ کے محوِ اظہارِ تمنائے دلِ نا کام ہوں لاج رکھ لینا کہ میں اقبال کا ہم

دیگر

صبرِ ایوبِ وفا خُو جزوِ جانِ اہلِ درد گریۂ آدم سرشتِ دودمانِ اہلِ درد ہے سکوں نا آشنا طبعِ جہانِ اہلِ درد جوں قمر سائر ہے قطبِ آسمانِ اہلِ درد اوجِ یک مشتِ غبارِ آستانِ اہلِ درد جوہرِ رفعت بلا گردانِ شانِ اہلِ درد پھر رہے ہیں گلشنِ ہستی کے نظّاروں میں مست نکہتِ گل ہے شرابِ ارغوانِ اہلِ درد ابتدا    میں    شرحِ    رمز    آیۂ     لاتقربا کس قدر مشکل تھا پہلا امتحانِ اہلِ درد ہم نشیں رونا ہمارا کچھ نیا رونا نہیں تھی ہم آہنگِ ندائے ’’کن‘‘ فغانِ اہلِ درد شورشِ محشر جسے واعظ نے ہے سمجھا ہوا ہے وہ گلبانگِ درائے کاروانِ اہلِ درد بتکدے کی سمت کیوں جاتا ہے یا رب برہمن کعبۂ دل ہی تو ہے ہندوستانِ اہلِ درد گرمیِ جوشِ عقیدت سے کیا کرتی ہے طوف کعبۂ برقِ بلا ہے آشیانِ اہلِ درد ذبح ہونا کوچۂ الفت میں ہے ان کی نماز ہے صدا تکبیر کی گویا اذانِ اہلِ درد دار پر چڑھنا نہ تھا ، معراج تھا منصور کو تھی وہ سولی در حقیقت نردبانِ اہلِ درد موجِ خونِ سرمد و تبریزی و منصور سے کس قدر رنگیں ہے یا رب داستانِ اہلِ درد تو نے اے انسانِ غافل آہ ! کچھ پروا نہ کی بے زباں طائر سمجھتے تھے زبانِ اہلِ درد دیدئہ سوزن

اہلِ درد

زندگی دنیا کی مرگِ ناگہانِ اہلِ درد موت پیغامِ حیاتِ جاودانِ اہلِ درد بند ہو کر اور کھلتی ہے زبانِ اہل درد بولتا ہے مثلِ نے ہر استخوانِ اہلِ درد یہ وہ پستی ہے کہ اس پستی میں ہے رفعت نہاں سر کے بل گرتا ہے گویا نردبانِ اہلِ درد آپ بائع آپ ہی نقد و متاع و مشتری ساری دنیا سے نرالی ہے دکانِ اہلِ درد اس خموشی اور گویائی کے صدقے جائیے محوِ شکرِ بے زبانی ہے زبانِ اہلِ درد بیخودی میں یہ پہنچ جاتے ہیں اپنے آپ تک عین بیداری نہ ہو خوابِ گرانِ اہلِ درد کہہ رہی ہے ہر کلی گلزارِ ابراہیم کی آگ سے ہوتا ہے پیدا گلستانِ اہلِ درد پالیا موسیٰ نے آخر بندئہ اللہ کو درد والوں ہی کو ملتا ہے نشانِ اہلِ درد ان کی دنیا بھی یہی ، عرشِ معلّیٰ بھی یہی دل مکانِ اہلِ درد و لامکانِ اہلِ درد ہائے کیوں محشرپہ واعظ نے اٹھا رکھی ہے بات ہے اسی دنیا میں ہوتا امتحانِ اہلِ درد درد ہی کے دم سے ہے ان دل جلوں کی زندگی درد سے پیدا ہوئی روح و روانِ اہلِ درد لیتے ہیں داغِ محبّت سے گلِ جنّت مراد ہائے کیا مرغوب ہے طرزِ بیانِ اہلِ درد یہ اجڑ جانے کو آبادی سمجھتے ہیں مگر ڈھونڈتا ہے راہزن کو کاروانِ اہلِ درد ارتجالاً ہم نے اے اقبال

فریادِ امّت

دل میں جو کچھ ہے ، نہ لب پر اسے لائوں کیوں کر ہو چھپانے کی نہ جو بات چھپائوں کیوں کر شوقِ نظّارہ یہ کہتا ہے قیامت آئے پھر میں نالوں سے قیامت نہ اٹھائوں کیوں کر میری ہستی نے رکھا مجھ سے تجھے پوشیدہ پھر تری راہ میں اس کو نہ مٹائوں کیوں کر صدمۂ ہجر میں کیا لطف ہے اللہ اللہ یہ بھی اک ناز ہے تیرا ، نہ اٹھائوں کیوں کر زندگی تجھ سے ہے اے نارِ محبّت میری اشکِ غم سے ترے شعلوں کو بجھائوں کیوں کر تجھ میں َسو نغمے ہیں اے تارِ ربابِ ہستی زخمۂ عشق سے تجھ کو نہ بجائوں کیوں کر ضبط کی تاب نہ یارائے خموشی مجھ کو ہائے اس دردِ محبت کو چھپائوں کیوں کر بات ہے راز کی پر منہ سے نکل جائے گی یہ میٔ کہنہ خُمِ دل سے اچھل جائے گی آسماں مجھ کو بجھا دے جو فروزاں ہوں میں صورتِ شمع سرِ گورِ غریباں ہوں میں ہوں وہ بیمار جو ہو فکرِ مداوا مجھ کو درد چپکے سے یہ کہتا ہے کہ درماں ہوں میں دیکھنا تو مری صورت پہ نہ جانا گُل چیں دیکھنے کو صفتِ نو گُلِ خنداں ہوں میں موت سمجھا ہوں مگر زندگیِ فانی کو نام آ جائے جو اس کا تو گریزاں ہوں میں دور رہتا ہوں کسی بزم سے اور جیتا ہوں یہ بھی جینا ہے کوئی جس سے پشیماں ہوں میں کنجِ عزلت سے

ماتم پسر

اندھیرا صمدؔ کا مکاں ہو گیا وہ خورشیدِ روشن نہاں ہو گیا بیاباں ہماری سرا بن گئی مسافر وطن کو رواں ہو گیا گیا اڑ کے وہ بلبلِ خوش نوا چمن پائمالِ خزاں ہو گیا نہیں باغِ کشمیر میں وہ بہار نظر سے جو وہ گل نہاں ہو گیا گیا کارواں ، اور میں راہ میں غبارِ رہِ کارواں ہو گیا گرا کٹ کے آنکھوں سے لختِ جگر مرے صبر کا امتحاں ہو گیا بڑھا اور اک دشمن جاںِ ستاں دھواں آہ کا آسماں ہو گیا ستم اس غضب کا خزاں نے کیا بیاباں مرا بوستاں ہو گیا ہوئی غم کی عادت کچھ ایسی مجھے کہ غم مجھ کو آرامِ جاں ہو گیا کسی نوجواں کی جدائی میں قد جوانی میں مثلِ کماں ہو گیا جدائی میں نالاں ہو بلبل نہ کیوں وہ گل زیبِ باغِ جناں ہو گیا وہ سرخی ہے اشکِ شفق رنگ میں حریف میٔ ارغواں ہو گیا بنایا تھا ڈر ڈر کے جو آشیاں وہی نذرِ برقِ تپاں ہو گیا کروں ضبط اے ہم نشیںکس طرح کہ ہر اشک طوفاں نشاں ہو گیا غضب ہے غلامِ حسن کا فراق کہ جینا بھی مجھ کو گراں ہو گیا دیا چن کے وہ غم فلک نے اسے کہ مقبلؔ سراپا فغاں ہو گیا ۱ -     مخزن ، جولائی ۱۹۰۲ء

شکریۂ انگشتری

آپ نے مجھ کو جو بھیجی ارمغاں انگشتری دے رہی ہے مہر و الفت کا نشاں انگشتری زینتِ دستِ حنا مالیدئہ جاناں ہوئی ہے مثالِ عاشقاں آتش بجاں انگشتری تو سراپا آیتے از سورئہ قرآنِ فیض وقفِ مطلق اے سراجِ مہرباں انگشتری میرے ہاتھوں سے اسے پہنے اگر وہ دل ربا ہو رموزِ بے دلی کی ترجماں انگشتری ہو نہ برق افگن کہیں اے طائرِ رنگِ حنا تاکتی رہتی ہے تیرا آشیاں انگشتری ساغرِ مے میں پڑا انگشتِ ساقی کا جو عکس بن گئی گردابۂ آبِ رواں انگشتری ہوں بہ تبدیلِ قوافی فارسی میں نغمہ خواں ہند سے جاتی ہے سوئے اصفہاں انگشتری یا رم از کشمر فرستادست چار انگشتری چار در صورت بمعنی صد ہزار انگشتری چار را گر صد ہزار آوردہ ام اینک دلیل شد قبولِ دستِ یارم ہر چہار انگشتری داغ داغ از موجِ مینا کاریش جوشِ بہار میدہد چوں غنچۂ گل بوئے یار انگشتری در لہاور۱ آمد و چشمِ تماشا شد تمام بود در کشمیر چشمِ انتظار انگشتری یار را ساغر بکف انگشتری در دستِ یار حلقہ اش خمیازئہ دستِ خمار انگشتری ما اسیرِ حلقہ اش او خود اسیرِ دستِ دوست اللہ اللہ دام و صیّاد و شکار انگشتری خاتمِ دستِ سلیماں حلقہ در گوشِ وے است اے عجب انگشتری را جاں نثار ا

اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب کے مسلمانوں سے

بند اوّل ہم سخن ہونے کو ہے معمار سے تعمیر آج آئینے کو ہے سکندر سے سرِ تقریر آج نقش نے نقّاش کو اپنا مخاطب کر لیا شوخیٔ تحریر سے گویا ہوئی تصویر آج سن کے کیا کہتی ہے دیکھیں بادِ عنبر بارِ صبح لب کشا ہونے کو ہے اک غنچۂ دلگیر آج دیکھئے گُل کس طرح کہتا ہے احوالِ خزاں مانگ کر لایا ہے بلبل سے لبِ تقریر آج عشق ہر صورت سے ہے آمادئہ تزئینِ حسن ہے پرِ پروانہ سے کارِ لبِ گل گیر آج گرمیٔ فریاد کی آتش گدازی دیکھنا شمع کے اشکوں میں ہے لپٹی ہوئی تنویر آج آہ میں یارب وہ کیا انداز معشوقانہ تھا جوشِ لذّت میں فدا ہو ہو گئی تاثیر آج عقدے کھل جانے کو ہیں مثلِ دہانِ روزہ دار ہے ہلالِ عید اپنا ناخنِ تدبیر آج دیکھیے اس سحر کا ہوتا ہے کس کس پر اثر ہے دخانِ شمعِ محفل سرمۂ تسخیر آج زینت محفل ہیں فرہادانِ شیرینِ عطا اس محل میں ہے رواں ہونے کو جوئے شیر آج صبر را از منزلِ دل پابجولاں کردہ ام گیسوئے مقصود را آخر پریشاں کردہ ام بند دوم آج ہم حالِ دلِ درد آشنا کہنے کو ہیں اس بھری محفل میں اپنا ماجرا کہنے کو ہیں ہر نفس پیچیدہ ہے مانند دُورِ شمعِ طور داستانِ دلکشِ مہر و وفا کہنے کو ہیں دیکھیے محفل می